ماں اور باپ دنیا کی وہ ہستیاں ہیں، جو کہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو کھانا کھلاتی ہیں۔ لیکن کئی بار انہیں کچھ ایسا دکھ بھی سہنا پڑتا ہے جو کہ انہیں توڑ کر رکھ دیتا ہے۔
ایک ایسی ہی ماں کے بارے میں آپ کو بتائیں گے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی زاہدہ کاظمی 63 سال کی ہیں۔ ان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اس حد تک ہیں کہ شوہر کی وفات کے بعد بچے بھی چھوڑ گئے۔ مشکل گھڑی اس وقت ہوتی ہے جب ایک ماں اپنے بچوں کی خاطر سب کچھ قربان کردے مگر اس کا صلہ بچے یہ دیں کہ ماں ہی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں کہ تم ٹیکسی چلاتی ہو۔
زاہدہ کاظمی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی تھیں مگر 1971 میں سقوط ڈھاکا کے وقت ان کے شوہر ان سے بچھڑ گئے اور پھر کبھی نہ ملے۔ شوہر کے اس طرح اچانک بچھڑ جانے پر ان کی زندگی ہی بدل گئی تھی۔
بچوں کو سنبھالنے کی، کھانا کھلانے کی ذمہ داری زاہدہ پر آ گئی تھی۔ زاہدہ گھروں میں کام کر کے بچوں کا پیٹ پالتی اور انہیں پڑھا بھی رہی تھیں۔ ان کے 6 بچے ہیں جن میں 2 بیٹے اور 4 بیٹیاں شامل ہیں۔ زاہدہ نے بچوں کی خاطر امن و امان کی بدتر صورتحال میں بھی ٹیکسی چلائی، طالبان کے دور میں بھی زاہدہ لورالائی اور کے پی کے ان علاقوں میں گئیں جہاں مرد بھی جانے سے ڈرتے تھے۔
زاہدہ کہتی ہیں کہ طالبان نے میری گاڑی کو روک کرسوالات کیے تھے مگر میرے جواب پر انہوں نے مجھے جانے بھی دیا اور اچھا سلوک کیا۔
زاہدہ بتاتی ہیں کہ میرے 6 بچوں کو پڑھا لکھا کر ان کی شادی کرائی، انہیں اس قابل بنایا کہ وہ خود کما سکیں، اور آج انہی نے مجھے بے گھر کر دیا ہے۔ زاہدہ کہتی ہیں کہ بیٹیاں اچھی ہیں مگر بیٹوں نے رابطہ ختم کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ تم ٹیکسی نہ چلاؤ، اس سے ذلت ہوتی ہے۔
زاہدہ اس وقت پھوٹ پھوٹ کر روتی ہیں، جب انہیں اپنی پوتی یاد آتی ہے۔ کیونکہ ان کی بہو انہیں بیٹے اور پوتی سے ملنے نہیں دیتی۔ زاہدہ نے بچوں کی شادی کرانے کے بعد دوسری شادی کی اور ان کی بیٹی بھی پیدا ہوئی، مگر شادی کے کچھ سالوں بعد ہی شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اور اس طرح ایک بار پھر ان پر اپنی بیٹی کی ذمہ داری آ گئی۔
مگر اس بار وہ پُر امید ہیں کہ میری بیٹی میرا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ زاہدہ اسلام آباد، راولپنڈی، مری، سمیت کئی شہروں میں ٹیکسی چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے جہاں کی بھی سواری ملتی ہے میں لے لیتی ہوں۔ زاہدہ اگرچہ بچوں کی بے رخی پر دلبرداشتہ ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی مامتا کو نہیں مار سکیں کہتی ہیں کہ بچے تو میرے ہی ہیں نا، ان کو بد دعا کیسے دے سکتی ہوں۔
چونکہ زاہدہ کا تعلق سید گھرانے سے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں لیتی، زاہدہ نے محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو کھلایا بھی اور پڑھایا بھی۔
زاہدہ کاظمی اگرچہ اب اس طرح نہیں ہیں، ان کے چہرے پر جھریاں آ چکی ہیں، ہاتھوں اور پیروں کی جلد بھی اب جواب دے رہی ہیں۔ مگر مامتا اور بیٹی کو کامیاب کرانے کے لیے زاہدہ خود محنت کر رہی ہیں۔ زاہدہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہی ہیں اور محنت ہی پر منحصر رہنے کا عزم رکھتی ہیں۔
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Taxi Chala Kar Bachon Ko Parhaya and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Taxi Chala Kar Bachon Ko Parhaya to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.