عثمانیہ خلافت میں کئی ایسے سلطان گزرے ہیں جو کہ اپنے منفرد اور توجہ طلب اقدامات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، سلطان عبدالحمید خان بھی انہی چند میں سے ایک تھے۔
سلطان آخری ان سلطانوں میں سے تھے جو کہ بااختیار تھے، اور عثمانیہ خلافت کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔
سلطان اس لیے بھی مشہور تھے کہ وہ ایک سچے عاشق رسول تھے اور ہر موقع پر آقائے دو جہاں ﷺ کی توہین کے خلاف اقدامات کرتے رہے۔
ترکی کا شہر استنبول اپنے اندر کچھ ایسے راز رکھتا ہے جو کہ خوفناک بھی ہیں اور دلچسپ بھی،سلطان عبدالحمید خان کے دور میں بھی ایک ایسا ہی خوفناک راز فاش ہوا تھا۔
1456 میں اٹلی کا ایک وفد نے سلطان محمد سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا، وفد اس حد تک سلطان سے ملنے کے لیے کوشاں تھا کہ سفیروں کو بیش قیمتی تحائف تک دے ڈالے تاکہ سلطان تک رسائی ممکن ہو سکے۔ لیکن اس وقت وفد کو مایوسی کا سامنا ہوا جب سلطان نے ملاقات سے انکار کر دیا۔
مگر بارہاں کوششوں کی وجہ سے سلطان محمد نے اپنے خاص وزیر کو اس وفد سے تعاون کا کہا جس کے بعد وفد کی ملاقات اس خاص وزیر سے ہوئی۔ دراصل یہ وفد سلطنت میں موجود ایک تالابی علاقے بیسلیکا سیسترن تک رسائی چاہتا تھا۔ اس مقام پر کچھ ایسے قدیم خزانے موجود تھے جو کہ وفد کے مذہب کے لیے مقدس تھے۔
لیکن سلطان کی اجازت کے بغیر وہاں تک رسائی ممکن نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ وفد نے ایک بار پھر سلطان سے ملنے کی درخواست کی۔ وفد کی جانب سے بتایا گیا کہ اس مقام پر کئی قیمتی خزانے موجود ہیں جس سے ہمیں کوئی سر و کار نہیں ہمیں صرف ایک ایسی قبر تک رسائی چاہیے جو وہاں موجود ہے۔وہ قبر دراصل میڈوسا کی تھی، میڈوسا کو ایک ممی کی صورت میں اس مقام میں محفوظ رکھا ہوا تھا۔ سلطان نے اس وفد کی یہ آفر مسترد کر دی کہ آپ خزانہ لے لیں اور ہمیں وہ قبر دے دیں اور اس قبر کو ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا۔
چونکہ سلطان عبدالحمید کو تاریخ کے منفرد اور دلچسپ واقعات کی کھوج لگانے کا شوق رکھتے تھے، جب انہیں اپنے دور میں اس واقعے کا علم ہوا، اور علم بھی اس طرح ہوا کہ اٹلی کے ایک اور وفد نے سلطان سے وہی درخواست کی جو کہ فاتح سلطان محمد سے کی تھی۔
سلطان نے دوسری بار بھی اجازت نہ دی مگر سلطان عبدالحمید نے اس بار خود اس معاملے کی کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔ سلطان نے قابل تحقیقی افسران کو اس پتھر کی قبر کے حوالے سے طلب کیا، جب سلطان نے اس قبر کو کھلوا کر دیکھا تو اس میں ایک خاتون موجود تھی جس کے سر پر موجود بال کچھ اس طرح تھے جیسے کہ سانپ ہوں، اگرچہ جسم خراب ہو چکا تھا مگر اب بھی موجود تھا۔
لیکن سلطان نے اس پورے معاملے میں ایک چال چلی، چونکہ اگر یہ قبر کھلتی تو لوگوں میں عدم اعتماد اور مختلف خیالات پروان چڑھ سکتے تھے، یہی وجہ تھی کہ سلطان نے اس قبر کو بند کر کے صحافیوں کے سامنے پیش کیا اور منطق کے طور پر کہا کہ اگر اس قبر کو کھولیں گے تو اندر موجود جو بھی چیز ہے وہ خراب ہو سکتی ہے اور ہم نہیں چاہیں گے کہ تاریخی ورثاء خراب ہو۔
حال میں یہ قبر ملا فناری عیسیٰ جامع مسجد کے مقبرے کے پاس موجود ہے، لیکن اندر کچھ نہیں ہے، عین ممکن ہے کہ سلطان نے میڈوسا کی لاش کو کہیں چھپا دیا ہو۔ لیکن کچھ کا خیال ہے کہ شیطانی قوت کی تنظیم اس لاش کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
قدیم یونان میں میڈوسا کو ایک خاص مقام حاصل تھا، اس افسانوی اور خوفناک کردار کو یہاں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ بڑی بڑی نشیلی آنکھیں، سانپ جیسے لمبے بال، خوفناک چہرہ میڈوسا کو مزید خوفناک بناتا تھا۔ افسانوی کردار کے طور پر مشہور میڈوسا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے کوئی آدم ذات مار نہیں سکتا کیونکہ جو بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتا تھا تو وہ پتھر کا ہوجاتا تھا۔
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Sanpon Ki Malka Ka Waqia and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Sanpon Ki Malka Ka Waqia to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.