کسی بھی والدین کے لیے اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ وہ ان کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے کا تیار رہتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا بچہ یا بچی کو کسی بھی قسم کی تکلیف ہو۔
بلاشبہ ماں باپ کے لیے وہ بہت مشکل ترین اور تکلیف دہ وقت ہوتا ہے جب اس کی اولاد پیدائشی طور کسی موذی مرض میں مبتلا ہو۔ ایسی صورت میں والدین اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس کا اچھے سے اچھے اسپتال میں علاج کرواتے ہیں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ کورونا وبا نے سب کا جینا محال کر دیا تھااور اس دوران دنیا بھر میں جہاں زندگی کا نظام درہم برہم تھا وہیں علاج و معالجے کی سہولیات میں اثر پڑا تھا۔
ان تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے چین کے شہر کنمنگ میں مقیم ژہو وئے اپنی مرتی ہوئی اولاد کو زندگی بچانے کے لیے خود میدان میں اترے ہیں۔
ان کا دو سالہ بیٹا ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کی دوا چین میں میسر نہیں ہے، اور ان کے بیٹے کے پاس صرف چند ماہ کا ہی وقت ہے۔
30 سالہ ژہو کا ننھا بیٹا ہاؤیانگ 'مینکس سینڈروم' میں مبتلا ہے۔ یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جس میں انسانی جسم میں موجود کوپر کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔ کوپر دماغ کی نشونما کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔
کورونا کے باعث چین کی سرحدیں بند ہیں اور ژہو اپنے ننھے بچے کے علاج کے لیے اسے ملک سے باہر بھی نہیں لے جا سکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے خود دوا بنانے کی ٹھان لی۔
ژہو وئے نے اپنے گھر میں ہی والد کے جم میں ایک لیبارٹری کی بنیاد رکھی جس میں انہوں اپنے بیٹے کی لاعلاج بیماری کے لیے دوا بنانے کا عمل شروع کیا۔
ژہو نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ "میرے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا کہ آخر مجھے یہ کرنا چاہیے یا نہیں،مگر مجھے اپنے بیٹے کی جان بہت عزیز تھی۔"
ژہو کا کہنا ہے ان کا بیٹا بولنے یا حرکت کرنے کے قابل نہیں ہے لیکن اس کے اندر ایک جان ہے جو جذبات اور احساسات محسوس کر سکتی ہے۔
انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور اس کے علاج کے لیے ایک ہی واحد دوا ہے جو بیماری پر قابو پانے میں مدد فراہم کر سکتی ہے اور یہ دوا چین میں دستیاب ہی نہیں ہے۔
پھر انہوں نے خود اس دوا کو بنانے کے لیے تحقیق شروع کی۔ژہو کے بقول ان کے دوست احباب اور رشتہ دار اس فیصلے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ یہ نا ممکن ہے۔کرونا کی وجہ سے چین کی سرحدیں بند ہیں اور ژہو اپنے ننھے بچے کے علاج کے لیے اسے ملک سے باہر بھی نہیں لے جا سکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے خود دوا بنانے کی ٹھان لی۔
ژہو وئے نے اپنے گھر میں ہی والد کے جم میں ایک لیبارٹری کی بنیاد رکھی جس میں انہوں اپنے بیٹے کی لاعلاج بیماری کے لیے دوا بنانے کا عمل شروع کیا۔
ژہو نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ "میرے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا کہ آخر مجھے یہ کرنا چاہیے یا نہیں، مجھے یہ کرنا ہی تھا۔"
ژہو کا کہنا ہے ان کا بیٹا بولنے یا حرکت کرنے کے قابل نہیں ہے لیکن اس کے اندر ایک جان ہے جو جذبات اور احساسات محسوس کر سکتی ہے۔
انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور اس کے علاج کے لیے ایک ہی واحد دوا ہے جو بیماری پر قابو پانے میں مدد فراہم کر سکتی ہے اور یہ دوا چین میں دستیاب ہی نہیں ہے۔ پھر انہوں نے خود اس دوا کو بنانے کے لیے تحقیق شروع کی۔
ژہو کے بقول ان کے دوست احباب اور رشتہ دار اس فیصلے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ یہ نا ممکن ہے۔
*دوا خود سے تیار کے لیے کوئی اور راستہ نہیں تھا
مینکس سینڈروم سے متعلق زیادہ تر معلومات انگریزی زبان میں تھی اور ژہو نے لیبارٹری بنانے سے قبل ان معلومات کو سمجھنے کے لیے چینی زبان میں ترجمہ کرنے والے سافٹ وئیر کی مدد لی۔
علیل بیٹے کے والد اپنےاپنے بچے کو روزانہ گھر میں تیار کی جانے والی دوا فراہم کرتے تھے۔
اب ژہو اپنے بیمار بیٹے کو روزانہ گھر میں تیار کی جانے والی دوا کی خوراک دیتے ہیں جو ان کے بیٹے کے جسم میں کوپر کی وہ مقدار فراہم کرتی ہے جو اس کے جسم میں موجود نہیں۔
ژہو کا دعویٰ ہے کہ بیٹے کا علاج شروع کرنے کے دو ہفتوں بعد ہی اس کے خون کے چند ٹیسٹ کے نتائج نارمل آئے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ بیماری عالمی سطح پرایک لاکھ بچوں میں سے صرف ایک بچے کو ہی لاحق ہوتی ہے۔ جب کہ یہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
ژہو نے چھ ہفتے تجربہ کرنے کے بعد پہلی دوا تیار کی تھی جسے انہوں نے سب سے پہلے خرگوش پر تجربہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے اسے خود پر بھی تجربہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ دوا کی خوراک دینے کے بعد خرگوش بالکل ٹھیک تھے جب کہ انہیں بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ دوا اپنے بیٹے کو دینے کا فیصلہ کیا۔
تیس سالہ ژہو کی بیٹے کے علاج کے لیے کاوشوں نے عالمی بائیو ٹیک لیب 'ویکٹر بلڈر' کو بھی اس بیماری کے علاج کے لیے 'جین تھراپی' پر تحقیق شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔
ویکٹر لیب کے چیف سائنس دان بروس لان کا کہنا ہے کہ وہ ژہو کے خاندان کو جاننے کے بعد ان سے متاثر ہوئے۔
اب ان کی لیبارٹری میں آئندہ چند ماہ کے اندر اس بیماری کے علاج کے لیے جانوروں پر کلینکل ٹرائلز اور تجربات کا آغاز کیا جائے گا۔
دوسری جانب چین کی پیکنگ یونیورسٹی کے میڈیکل جینیٹکس ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر ہوانگ یو کا کہنا ہے کہ بحیثیت ایک ڈاکٹر انہیں ژہو کے
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Khud Dawa Tayar Kar Li and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Khud Dawa Tayar Kar Li to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.