"خدا کے لئے مجھ پر رحم کریں مجھے گھر سے نہ نکالیں"۔۔ ہیروئن ہاتھ جوڑ کراپنی ساس اور نند سے رو رو کر رحم کی بھیک مانگ رہی ہے اور ساس اور نند اسے دھکے دے کر گھرسے نکال دیتی ہیں ۔۔ یہ سین ابھی حالیہ بلاک بسٹر سیریل "میرے ہمسفر" کا ہے۔۔۔ عورت کسی بھی دور کی ہومظلومیت کا لبادہ آسانی سے اوڑھ سکتی ہے اور مرد چاہے کسی بھی دور کا ہو اس کو ظالم کا خطاب آسانی سے مل جاتا ہے۔ یہ ہمارا معاشرتی رویہ اور چلن بن چکا ہے۔ ایسے میں جب کہ ہم ایک نئے دور میں جدید دنیا میں داخل ہو چکے ہیں ، ہمارا میڈیا آج بھی عورت کی مظلومیت سے کما رہا ہے۔ عورت کو طلاق دلوا کر، تھپڑ پڑوا کر اورگھر سے نکلوا کرڈرامے ہٹ کروائے جاتے ہیں۔ یا پھرعورت کا دوسرا روپ ایک ناگن ٹائپ کی عورت کا دکھایا جاتا ہے جو اپنے زہر سے سب کچھ آلودہ کردیتی ہے۔
ہماری عوام بھی وہی ڈرامہ پسند کرتے ہیں جس میں عورت پورے ڈرامے میں یا تو پٹتی رہے یا روتی رہے، وہ ڈرامے بلاک بسٹراور رینکنگ میں سب سے آگے ہوتے ہیں جس میں عورت دبی ہوئی سسرال یا پھر شوہر یا باپ بھائی کے ظلم وستم کا شکار ہو۔ ہم ایسی عورتوں کو نا خود پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ہمارا میڈیا ایسی عورت کا مثبت روپ پیش کرتا ہے جس میں عورت مضبوط ہو یا انڈیپنڈنٹ ہو۔ ایسی عورت کو ہمیشہ ولن کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔
اب جبکہ دور بدل گیا ہے ، اب بہت کم ایسے گھرانے ہوں گے جہاں عورت پرباقاعدہ تشدد کیا جاتا ہو۔ مار پیٹ یا ظلم و ستم کیا جائے اس سے جینے کا حق چھین لیا جائے۔ اب تو سوشل میڈیا یا موبائل کی وجہ سے بات منٹوں میں پھیلتی ہے اور اس پرفوری ردعمل بھی سامنے آجاتا ہے۔(حالیہ فیروز خان کیس)۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے کیسز اب ہونا بند ہوگئے ہیں یا یہ صرف جاہلوں کا ہی وتیرہ ہے کہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب عورتوں میں بھی اتنی آگہی ہے کہ وہ اپنے خلاف ظلم پر آواز اٹھانا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں عورت کو گالی دینا یا مارنا پیٹنا مردانگی کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اور اس روایت کو بڑھاوا دینے میں گھر کی خواتین جس میں مرد کی ماں اور بہنیں بھی شامل ہیں وہ آگے آگے ہوتی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی نفسیات کیا ہے؟ ہمیں عورت صرف مظلوم ہی کیوں پسند ہے؟ ہم عورت کوخودمختار کیوں نہیں دیکھنا چاہتے؟ نئے نوجوان لڑکوں میں اب یہ رجحان خاصا دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ خواتین کو برابری کی حیثیت دینے کو تیار ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیوی یا ان کی بہن یا ان کی ماں کو جینے کا پورا حق دیا جائے اور ان کو بھی زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ جبکہ پرانے دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ عورت جتنا دب کے رہے گی ، جتنی زیادہ زیادتیاں سہے گی اتنا ہی اپنے مرد کے دل پر راج کرے گی۔ یا اتنی ہی کامیاب ازدواجی زندگی گزارے گی۔ اس کے علاوہ پاکستانی اور انڈین ڈراموں میں تو آج تک یہ رواج ہے کہ ساری زندگی جوتے کھاؤ آخرمیں سب کو معاف کر کے مہاتما بن جاؤ اور ہنسی خوشی زندگی گزارو۔
اس وقت کتنے ایسے گھرانے ہوں گے جہاں مرد ظالم اور عورت مظلوم ترین ناچیزسی شے ہوگی۔۔ ہمارے خیال میں مرد اتنا ظالم نہیں جتنا اس کو فلموں ڈراموں یا کہانیوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ خاص کر بیٹیوں کے معاملے میں تو زیادہ تر باپ موم ہو ہی جاتے ہیں، بیویاں بھی ناراض ہو کر اپنی بات منوا لیتی ہیں۔ اور بہنیں تو ہوتی ہی لاڈلی ہیں۔ یہ ہمارے عام مڈل کلاس گھرانے کا نقشہ ہے۔ جہاں اج بھی بیٹیوں کو مان، بیویوں کو عزت اور بہنوں کو پیار دیا جاتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ڈراموں میں ایسی مظلوم عورت کو پسند کیا جاتا ہے جو عورت جوتے کھائے اسے عزت دار سمجھا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں یہ مردوں کے دل کی بھڑاس ہو جو ڈراموں کے ذریعے نکالی جاتی ہے۔ ہماری پبلک ایسے ڈرامے کیوں پسند کرتی ہے؟ کیا ہم ذہنی طور پر اتنے غلام ہو چکے ہیں کہ جو کچھ اسکرین پر دکھایا جاتا ہے اسے ہم قبول بھی کرتے ہیں بلکہ داد وتحسین کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں۔ ہمیشہ مردوں کو ظالم اور عورتوں کو مظلوم کیوں سمجھا جاتا ہے۔
اس سوال کا جواب ہم اپنے قارئین سے پوچھتے ہیں کیا ان کے گھروں میں یا ان کے آس پاس ایسی صورتحال ان کو نظر آتی ہے؟ اگر ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Hamesha Aurat Mazloom Kiyun and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Hamesha Aurat Mazloom Kiyun to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.