حیدرآباد کی مشہور بمبئی بیکری کا کیک کھانے کے لیے ملک بھر سے لوگ دور دور سے آتے ہیں اور اس کو بنے ہوئے ایک سو سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن آج بھی ان کے کیک کا ذائقہ بالکل بھی نہیں بدلا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علاقے صدر میں سرخ رنگ کی عمارت کے باہر اور اندر لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ لکڑی کے فریم سے بنا دروازہ کھلتا ہے تو قطار میں کھڑے افراد میں سے ایک اندر کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ اس کمرے میں مزید قطاریں بھی موجود ہیں، جہاں ایک طرف رقم دی جا رہی ہے تو دوسری طرف ٹوکن دے کر کیک خریدے جا رہے ہیں۔ پہلاج رائے گنگا رام تھدانی نے سنہ 1911 میں حیدر آباد کے علاقے صدر میں بمبئی بیکری قائم کی تھی۔ ایک بنگلے میں قائم اس بیکری میں رہائشگاہ بھی بنائی گئی۔بمبئی بیکری میں چاکلیٹ سے تیار کردہ بریڈ، بسکٹ اور کیک بنائے جاتے تھے اور ان میں خالص مرکبات شامل کیے جاتے تھے۔
بمبئی بیکری کا کیک قدیم طریقے سے ہی تیار کیا جاتا ہے جس میں کسی مشین کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہاتھوں کا کمال ہوتا ہے، مشین صرف بادام پیسنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ مکسنگ وغیرہ روایتی طریقے سے کی جاتی ہے۔
کمار تھدانی نے ریڈیو پاکستان حیدر آباد کے سابق سٹیشن مینجر نصیر مرزا کو اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ چاکلیٹ، کافی اور میکرون کیک کے نسخے ان کے والد کے ہی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی وفات کے بعد انھوں نے انگریزی کتابوں میں شائع ہونے والے کیک اور بسکٹوں کی تراکیب کو آزمایا جن کو پسند بھی کیا گیا۔بمبئی بیکری کا کیک ویسے تو پورے ملک میں مشہور ہے لیکن حیدر آباد کی تو یہ سوغات ہے۔
اس کیک کی تیاری کا فارمولا صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا، یہ بات عام تھی کہ گھر کی کسی بزرگ خاتون کے پاس اس کی ترکیب ہے۔اس بیکری کے قیام کے ابتدائی دنوں میں 20 کیک بنتے تھے لیکن اس تعداد میں اب 100 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں کیک خریدنے کے لیے وقت مقرر ہے کیونکہ ہر وقت کیک دستیاب نہیں۔ بیکری صبح آٹھ بجے کھلتی ہے لیکن گاہکوں کی قطار اس سے پہلے لگ جاتی ہے پھر بھی ہر کسی کے حصے میں یہ کیک نہیں آتا۔
تقسیم ہند سے قبل حیدر آباد میں زیادہ تر ہندو برادری تجارت کرتی تھی۔ تقسیم کے بعد یہاں سے کئی خاندان ہجرت کر گئے لیکن بمبئی بیکری واحد کاروبار ہے جو جاری رہا۔
اس کے بانی پہلاج رائے کا انتقال بھی قیام پاکستان کے ایک سال بعد حیدر آباد میں ہی ہوا تھا۔
پہلاج رائے کے پوتے اور بمبئی بیکری کے مالک کمار تھدانی نے براڈ کاسٹر نصیر مرزا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھیں نقل مکانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ جب سندھ میں خون اور فساد ہوا تھا اس وقت حیدرآباد میں فسادات کم رہے۔ انھوں نے حیدر آباد کے اس علاقے میں ایک لاش بھی گرتے نہیں دیکھی تھی اس لیے انھوں نے اپنی دھرتی نہیں چھوڑی تھی۔
کمار تھدانی ہندو مذہبی کتابوں، گرو گرنتھ کے ساتھ ساتھ قرآن کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔ وہ خود کو گرونانک اور سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا چیلا قرار دیتے تھے۔
پاکستان میں بمبئی بیکری کی شناخت اس کا کیک ہے لیکن حیدر آباد کے شہریوں کے لیے اس کی ایک شناخت اس کے مالکان کی درویشی اور سخاوت بھی ہے۔
کمار تھدانی کی زندگی میں کیک خریدنے والوں کے علاوہ مستحقین کی بھی قطار لگی ہوئی ہوتی تھی، وہ نہ صرف لوگوں کی انفرادی طور پر مدد کرتے بلکہ شمشان گھاٹ سے لے کر دل کے ہسپتال، ریڈیو پاکستان میں میوزک کو محفوظ کرنے تک کے لیے عطیات دیتے تھے۔
مبئی بیکری کی عمارت کا رنگ پہلے سفید تھا جس کو اب سرخ پینٹ کیا گیا ہے۔ اس کی چار دیواری چھوٹی تھی جس کو 1980 کی دہائی میں حیدرآباد میں ہونے والی لسانی ہنگامہ آرائی کے بعد اونچا کیا گیا۔
عمارت میں داخل ہونے کے لیے پہلے صرف دروازہ تھا اب دو کھڑکیوں کو بھی دروازوں کی شکل دی گئی ہے۔
عمارت میں کیک سجانے کے لیے موجود شیشے کے شوکیس ساگوان کی لکڑی کے بنے ہیں اور دروازے بھی قدیم ہیں جن میں سے بعض کو تبدیل کیا گیا ہے۔
خریداری کے کمرے میں پہلے ایک لائن ہوتی تھی اب چار قطاریں لگتی ہیں جن میں خواتین کسٹمرز کو ترجیح دی جاتی ہے۔
خریداری کے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں بھٹی لگی ہے جن کی تعداد تین کے قریب ہے جبکہ ماربل لگی ہوئی ٹیبل پر ایک درجن کے قریب لوگ بڑی بڑی چھریوں سے کیک کے ایک حصے پر مکھن لگاتے ہوئے نظر آئے۔
بھٹی والے کمرے کے ساتھ رہائشی کمرے ہیں بیکری سے لے کر رہائش گاہ تک صحن ایک ہی ہے۔ سوا ایکڑ رقبے میں ایک بڑا لان اور رہائشی کمروں کے ساتھ ایک چھوٹا باغیچہ ہے۔ اس عمارت کی چھت گاڈرز اور ٹیئرز پر پکی اینٹ کے چوکے لگا کر بنائی گئی ہے۔
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Bombay Bakeri Ki Kahani and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Bombay Bakeri Ki Kahani to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.