ماں بننے کی خواہش جتنی شدید ہوتی ہے، ماں بننے کے بعد اسکی ذمہ داری اتنی ہی بڑی ہوجاتی ہے۔ شادی کے بعد ہر عورت چاہتی ہے کہ وہ ماں بنے کیونکہ یہ ایک ایسا احساس ہے جو اسے مکمل کرتا ہے، لیکن کسی کے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا یہ تو اللّٰہ کی طرف سے تحفہ ہے جسے وہ جب چاہےجسکو چاہے عطا کردے۔
اولاد کی قدر ان جوڑوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے جنہیں قدرت نے اس نعمت سے محروم رکھا ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک عورت میگھن بھی تھی جس کی شادی کلے کے ساتھ جس وقت ہوئی اس کی عمر 20 سال اور اس کے شوہر کی عمر 22 سال تھی- ان دونوں کی ملاقات کالج میں ہوئی تھی جہاں پر چار سال تک ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے بندھن میں بندھنے کے بعد انہوں نے شادی کا فیصلہ کیا-
اس وقت بھی دونوں ہی زیر تعلیم تھے اور اس کے ساتھ ساتھ گزر بسر کے لیے مختلف جگہ پر نوکری کر رہے تھے میگھن کی زندگی کی تین سب سے بڑی خواہشیں تھیں جن کے بارے میں انہوں نے کلے کو بھی بتا رکھا تھا-
جس میں سب سے پہلی خواہش ان کی ایک بڑی فیملی کی تھی، دوسری خواہش بچوں کی نرس بننے کی تھی اور تیسری خواہش کسی بچے کو گود لینے کی تھی۔ کلے نے ان سے ان کی یہ تمام خواہشات پوری کرنے کا وعدہ شادی کے وقت ہی کر لیا تھا-
شادی کے وقت میگھن کے نرس بننے کی تعلیم کی تکمیل میں ایک سال رہتا تھا جس کی تکمیل کے لیے وہ تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم نرس کی جاب بھی کر رہی تھیں- شادی کے تین سال بعد میگھن پہلی بار امید سے ہوئيں مگر بدقسمتی سے ان کی یہ امید 13 ہفتوں بعد ہی ان کی سالگرہ والے دن ختم ہو گئی-
جس کے بعد اگلے پورے سال کوشش کے باوجود وہ دوبارہ سے ماں بننے کی خبر سے محروم رہیں جس نے ان کو اور ان کے شوہر کو مایوس کر دیا تھا- ڈاکٹر بھی ان کو کسی قسم کی امید دلانے میں ناکام رہے تو انہوں نے بچے کو گود لینے کا فیصلہ کیا اور اپنا نام دو ایسے اداروں میں لکھوا دیا جو بچوں کو گود دیتے تھے-
اسی دوران وہ ایک بار پھر امید سے ہو گئیں مگر اس بار حمل صرف 6 ہفتوں کے بعد ہی ضائع ہو گیا اور ان کو لگنے لگا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکیں گی۔ پانچ ہفتوں بعد جب وہ ایک بار پھر امید سے ہوئيں تو ان کو تب بھی یہ یقین نہ تھا کہ اس بار یہ حمل بار آور ہو سکے گا-
مگر اس بار نو مہینے کے بعد سی سیکشن کے نتیجے میں وہ ایک خوبصورت اور صحت مند بچے کی ماں بن گئیں- بیٹے کی پیدائش کے سوا مہینے کے بعد ہی ان کے پتے کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا گیا پے در پے آپریشن نے ان کو بہت کمزور کر دیا- اس کے ساتھ ایک چھوٹے بچے کو سنبھالنا ، نوکری اور تعلیم کی تکمیل ان سب چیزوں نے اس جوڑے کو تھکا کر رکھ دیا تھا-
اسی دوران ان کو بچے دینے والے ادارے کی جانب سے بھی کال آگئی کہ اگر آپ بچہ گود لینا چاہتے ہیں تو نو ماہ کا ایک بچہ موجود ہے جو کہ دوران حمل ماں کی بے احتیاطی کی وجہ سے کافی بیمار ہے- میں نے اور میرے شوہر نے اس موقع پر فیصلہ کیا کہ جو فیصلہ ہم نے اپنے بیٹے کی پیدائش سے قبل کیا تھا اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ہم نے اس بچے کو بھی گود لے لیا- اس دوران میگھن ایک بار پھر امید سے تھیں اور اس بار پانچ مہینے کے بعد ان کے گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی-
اس طرح ایک مختصر سے عرصے میں میگھن تین بچوں کی ماں بن گئیں جو کہ سب ہی تین سال سے کم عمر تھے ان ذمہ داریوں نے میگھن اور ان کے شوہر کو کسی حد تک معاشی مسائل سے دوچار کر دیا- جس کی وجہ سے وہ کلے کے والد کے خاندانی بزنس کو سنبھالنے کے لیے ان کے چھوٹے سے شہر میں منتقل ہو گئے-
اس کے بعد اگلے چار سالوں میں میگھن کے دو اور بچے بھی ہو گئے جس سے ان کے بچوں کی تعداد 5 ہو گئی یہ ایک بڑی فیملی تھی اس کو سنبھالنا اور اس کی دیکھ بھال کرنا ایک مشکل کام تھا- میگھن کی فیملی کو دیکھ کر کوئی بھی یہ محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ یہ سب سگے نہیں ہیں تاہم لوگ ان سے یہ ضرور پوچھتے کہ انہوں نے فیملی پلاننگ کیوں نہیں کی-
میگھن ایک بار پھر جب امید سے ہوئيں تو اس بار میگھن کے مطابق ان کا یہ حمل بغیر کسی پلاننگ کے تھا جو کہ پانچویں ہفتے ایک بار پھر ضائع ہو گیا- جس کے بعد میگھن کو یہ محسوس ہوا کہ قدرت ان کو دوبارہ نوازنا چاہتی ہے اس وجہ سے انہوں نے ایک بار پھر بچہ پلان کیا-
اس بار ان کے حمل کو کچھ ہی عرصہ گزرا کہ ان کو پتہ چلا کہ ان کے ہسپتال میں جہاں وہ بطور نرس کام کر رہی ہیں ایک عورت بہت بیمار ہے اور اس بات کی خواہشمند ہے کہ مرنے سے قبل اپنے بچے کو کسی اچھے گھرانے کے حوالے کر دے-
میگھن کو جب پتہ چلا تو انہوں نے اس عورت سے اس بچے کو بھی گود لینے کی درخواست کی جس نے اس کو قبول کر لیا- اس وقت میگھن ایک بار پھر پانچ ماہ کے حمل سے تھیں اور اس طرح انہوں نے اپنے بچے کی پیدائش سے قبل ایک اور بچہ گود لے لیا اور ایک ہی سال میں ان کی فیملی میں بچوں کی تعداد پانچ کے بجائے سات ہو گئی-
میگھن کا یہ ماننا ہے کہ ان کی زندگی کا وہ بدترین وقت تھا جب ڈاکٹروں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی ماں نہیں بن سکتیں جبکہ وہ اس خوف کا شکار بھی ہوگئی تھیں کہ کبھی ماں نہیں بن سکتی ہیں اور آج سات بچے ان کو ماں کہہ کر پکارنے کے لیے موجود ہیں
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Doctor Na Kaha Ap Kbhi Maa Nahi Ban Skti and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Doctor Na Kaha Ap Kbhi Maa Nahi Ban Skti to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.