مردہ خانہ اور یہ پیشہ شاید واحد پیشہ ہے، جس میں انسان کام کرنے سے گبھراتا ہے، اور خوف کا بھی شکار ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کام کرنے والے غسال کچھ ایسے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ سب حیران رہ جائیں گے۔
ایدھی فاؤنڈیشن سمیت پاکستان کی مخلتف این جی اوز سماجی کاموں میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، اسی دوران مردہ خانے اور سرد خانے بھی عام ہونے لگے۔
لیکن یہاں کام کرنے والوں کی آپ بیتی نے سب کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا، 1987 میں عبدالستار ایدھی نے سہراب گوٹھ ایدھی سردخانے بنایا تھا، جس میں بیک وقت 60 لاشیں رکھی جا سکتی تھیں، جو کہ بعدازاں تعداد بڑھ کر 100، پھر 150 اور بالآخر 300 تک کر دی گئی۔
ان سب ایدھی صاحب کے ساتھ کام کرنے والے انور کاظمی نے بتایا کہ ایدھی صاحب نے تقریبا 62 ہزار میتوں کو غسل دیا، ان لاشوں میں گلی سڑی، کٹی ہوئی، جلی ہوئی اور ٹکڑوں میں ملنے والی لاشیں بھی شامل تھیں۔
غسال لطاف حسین نے بتایا کہ مردوں کو غسل دیتے وقت کچھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو ہم بتاتے ہیں، جیسے کہ کیماڑی سے ایک شخص کی میت لائی گئی تھی جسے غسل دینا تھا۔ غسل دیتے وقت مُردے کا چہرا نورانی ہو گیا تھا، بدن سے ایک ایسی خوشبو پھوٹ رہی تھی کہ باہر تک پھیل گئی تھی۔ دوسری کچھ مُردوں کا چہرہ اس قدر خوفناک ہو جاتا ہے کہ ہم بھی خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جبکہ کچھ کا غسل دیتے وقت تبدیل ہو جاتا ہے۔
ایک ایسے ہی غسال محمد صدیق نے بھی اپنا تجربہ شئیر کیا، ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ میں میت کو غسل دے رہا تھا کہ تب ہی مردہ زندہ ہو گیا تھا، جب غسل کے لیے پانی ڈالا تو مردہ اچانک اٹھ گیا تھا، اس صورتحال میں بیٹے خوف کے مارے باہر بھاگ گئے تھے۔
اس شخص کے بچے اندر آ گئے اور والد سے ملنے لگے، تب ہی جو شخص تھا وہ کہنے لگا کہ مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟
جس پر بچوں نے کہا کہ آپ کومہ میں تھے اور ڈاکٹرز نے آپ کو مردہ قرار دے دیا تھا۔ لیکن محمد صدیق اس وقت حیران ہو گئے جب 2 سال بعد دوبارہ اسی شخص کی میت کو غسل کے لیے لایا گیا، اس بار بچے خود اندر آئے اور کہنے لگے کہ دوبارہ دیکھ لیں کہیں والد زندہ تو نہیں؟ جس پر محمد صدیق نے کہا کہ نہیں اس اب انتقال ہو گیا ہے۔
محمد صدیق کی زندگی اور روزگار ایک ایسے کام سے جڑا ہے جو یقینا بہت سے لوگ کرنا نہیں چاہیں گے، مگر یہ جو کام کر رہے ہیں، وہ اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ یہ کوئی عام شخص نہیں ہے۔
دوسری جانب خواتین کو غسل دینے والی خواتین کا موقف تھا کہ شروعات میں تو انہیں بھی ڈر لگتا تھا، تاہم اب عادت ہو گئی ہے۔
غسالہ پروین سلیم اور شیر بانو کا کہنا تھا کہ غیر مسلم خواتین کو بھی غسل دیا جاتا ہے، اگر مرنے والی خاتون عیسائی کنوائی لڑکی ہے تو اسے آنے والی خاتون اسے مہندی لگاتی ہیں، جبکہ اس کا میک اپ بھی کیا جاتا ہے۔ غسال کی جانب سے یہ انٹرویو ایکسپریس نیوز کو دیا گیا تھا۔
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Murda Zinda Ho Gaya and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Murda Zinda Ho Gaya to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.