دنیا میں کئی تاریخی مقامات موجود ہیں جن میں کئی راز دفن ہیں۔ انہی تاریخی مقامات میں پاکستان کے شہر ٹھٹھہ میں موجود مائی مکلی کا قبرستان ہے جس کی پراسرایت آج بھی قائم ہے اور بہت سے لوگ آج بھی اس جگہ کی مکمل معلومات حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مکلی دن میں سوتا ہے اور رات میں جاگتا ہے۔
کراچی سے ٹھٹھہ جائیں تو شہر کی حدود شروع ہونے سے قبل ہی مکلی کا تاریخی قبرستان آتا ہے جہاں ایک روایت کے مطابق ساڑھے 4 لاکھ قبریں موجود ہیں۔ وسیع سلسلہ کوہ کے 33 مربع میل رقبے میں 33 بادشاہ، 17 گورنر، سوا لاکھ اولیائے کرام اور لاتعداد ادبا، شعرا، دانشور، اہلِ علم اور عام آدمی سپرد خاک ہیں۔
یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جسے ثقافتی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1981 میں مکلی کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ جبکہ یہاں 20 کے قریب بڑے مقبرے بھی موجود ہیں۔اس قبرستان میں موجود قبروں کی قدامت 500 سال تک بتائی جاتی ہے۔
عام افراد کے لئے یہ جگہ صرف اینٹ پتھر کے مقبرے اور قبریں ہیں لیکن یہاں ایک ایسی دنیا آباد ہے جسے محسوس کیا جا سکتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے نا دکھنے والی مخلوقات موجود ہیں۔مکلی کا قبرستان ایک ایسا پراسرار مقام ہے جہاں آپ بغیر ٹائم مشین کا استعمال کیے بغیر ماضی میں جاسکتے جاتے ہیں۔ آپ موجودہ دنیا سے کٹ کر صدیوں پرانے ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔
پاکستان میں مائی مکلی کے قبرستان، جہاں آپ دس لاکھ مُردوں کے بیچ زندہ انسان موجود ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کی روح ان کی موجودگی محسوس کرتی ہے۔
کتاب مکلی نامہ کے مصنف میر علی شیرقانع کا بیان ہے کہ کوئی اللہ کا ولی حج کے سفر کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس کوہ کی ایک پہاڑی پر قیام پذیر ہوئے۔ رات کو شاید خواب میں مکہ کا نقشہ دیکھا۔ علی الصباح خواب سے بیدار ہوئے تو زبان مبارک پر ہذا مکۃ لی کا ورد تھا اور’’ ازدل خیز دبر دل ریزد ‘‘کے مصداق اس کلمہ صداقت اثر نے شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کر لی۔ مکتہ لی میں اولاً ’’ت‘‘ کی تخفیف ہوئی تو مکلی اور پھر امتداد زمانہ نے مکلی کے نام سے مشہور کر دیا۔
اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے کہ ایک عمر رسیدہ عابدہ خاتون اس علاقے میں رہائش پذیر تھیں جنہیں وہاں ہر کوئی جانتا تھا۔جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو اس پہاڑی پر ان کی آخری آرام گاہ تعمیر کی گئی۔اس سے متصل شیخ حماد جمالی نے ایک جامع مسجد کی بنیاد رکھی اور اس ٹیلے کا نام انہی زاہدہ خاتون کے نام پر ’’مکتہ لی‘‘ رکھا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ مکلی ہو گیا۔ اس شکستہ جامع مسجد کی محراب کے روبرو مذکورہ خاتون کا مزار اپنی خستہ حالت میں موجود ہے۔ لیکن اس مزار کے احاطے میں رات کو باجماعت نماز آج بھی ہوتی ہے جس کے کئ چشم دید گواہ موجود ہیں۔
یہاں کی پراسراریت بھی ہمہ جہت ہے۔ پیچ در پیچ اسرار اور کسی غیر مرئی مخلوق کی موجودگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔
یہاں کی صرف 45% قبروں پر کتبے اور تاریخ موجود ہے۔ بقایا 55% پر کوئی تاریخ یا تحریر نہیں ہے۔ لوح مزارات پر کندہ قرآنی آیات کا انتخاب بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ اس وقت کا معاشرہ کس طرح سوچ رہا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ صرف آیت الکرسی کندہ ہے لیکن درحقیقت سورہ آل عمران، سورہ توبہ اور کچھ حد تک سورہ عنکبوت کی زیادہ تعداد پائی گئ ہے۔ الٹی سیدھی کہانیوں اور روایتوں کو سُن کر خزانے کی تلاش کرنے والوں نے بیشتر مقبروں کو کھود کھود کر ان کو برباد کردیا ہے لیکن یہ مسلمانوں کے مقبرے ہیں کوئ فراعین مصر کے نہیں جو یہاں خزانے مدفون ہوں۔
مکلی پر لٹر فقیر کی قبر نہایت لمبی ہے ۔ اس کے بارے میں سندھ میں بڑی عجیب و غریب داستانیں مشہور ہیں جن کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان میں بلاشبہ انتہا درجے کی مبالغہ آرائ بلکہ جھوٹ شامل ہے۔ مکلی سے ٹھٹہ کی جانب آتے ہوئے دائیں جانب ایک غار دکھائی دیتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ دور دراز ملکوں جایا جاتا تھا۔
مکلی میں ایک قدیم باولی بھی ہے۔ باولی ایسے کنویں کو کہا جاتا ہے جس میں نیچے تک سیڑھیاں بنی ہوتی ہیں اور آپ اس میں پانی کی سطح تک اتر سکتے ہیں۔ یہ مقامی لوگوں میں چوروں کا کنواں کے نام سے مشہور ہے کیونکہ کسی نے اس کے بارے میں مشہور کررکھا ہے کہ اس میں خزانہ موجود ہے اس لئے یہاں اکثر ہمت والے اپنی قسمت چمکانے کی جستجو میں اترتے ہیں لیکن بے مراد لوٹتے ہیں۔
یہاں جام نظام کا مقبرہ بھی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سانس لیتا ہے۔ یعنی اس میں ایک واضح لرزش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ کئ انجینئرز نے سسمک اسکیل پر اس مزار کی لرزش کی پیمائش کی ہے اور شدید حیران رہ گئے کہ واقعی اس مزار میں ایک لرزش موجود ہے۔
یہاں ایک کنواں بھی ہے جس کی دیواروں میں سرنگیں بنائ گئ ہیں۔ کوئ نہیں جانتا کہ یہ سرنگیں کہاں نکلتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ قیدخانے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ ابھی تک کوئی بھی کنویں کی سرنگوں میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوا کیونکہ وہاں جانے سے خوف آتا ہے لیکن ایک مقامی اخبار کے دو صحافیوں نے وہاں کوشش کی تھی مگروہ بھی ان سرنگوں میں چند قدم چلنے کے بعد واپس لوٹ آئے تھے۔
اسی طرح مکلی کے ایک دوردراز اور عوام کے لئے ناقابل رسائی مقام پر ایک مسجد کے کھنڈرات بھی ہیں جہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ نماز کے وقت پانی بہنے اور آوازیں آتی ہیں کہ جیسے کوئی وضو بنا رہا ہو۔ جرمنی سے ایک ڈاکیمینٹری ٹیم نے وہاں جانے کی کوشش کی تھی لیکن دہشت زدہ ہوکر وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔ اس مسجد کے راستے تک انتہائ خاردار جھاڑیاں اور پیچیدہ راستہ ہے۔
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Is Mashur Qabristan Ka Naam Makli Kyun Rakha Gaya and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Is Mashur Qabristan Ka Naam Makli Kyun Rakha Gaya to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.