کسی بھی خاتون کا جب حمل ٹہرتا ہے تو سب سے پہلی چیز یہ ہوتی ہے کہ اس کو مفت مشورے ملنا شروع ہوجاتے ہیں ، سب اپنے اپنے تجربے بیان کرنے لگتے ہیں اور ان کی روشنی میں مختلف نصیحتیں بھی کی جاتی ہیں۔ کچھ ایسے وہم یا توہمات بھی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن وہ برسوں اور نسلوں سے چلی ہوئی باتیں ہیں جن کی میڈیکل سائنس میں کوئی توجیح نہیں ملتی۔ لیکن چونکہ وہ ہماری امائیں یا نانیاں یا دادیاں کہتی ہیں اس لئے ان پر یقین بھی کرنا ہوتا ہے اور بات بھی ماننی پڑتی ہے۔ یہاں ہم کچھ ایسے ہی اوہام کی بات کریں گے جو حاملہ ماؤں کو جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ان کی حقیقت کیا ہے آئیے جانتے ہیں۔
سینے میں جلن رہتی ہے بچے کے بال گھنے ہیں:
حمل کے اس دورانیے میں اکثر ماؤں کو ایسیڈٹی کی شکایت ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے سینے میں جلن اور تکلیف رہتی ہے ہمارے ہاں اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ بچے کے بال معدے کے منہ پر آتے ہیں اور گھنے بال ہیں اس لئے ماں کے سینے میں جلن ہوتی ہے ، لیکن سائنس اس کی تصدیق نہیں کرتی صرف یہ پتہ چلا کہ کچھ خواتین جنہوں نے سینے میں جلن کی شکایت کی ان کے بچوں کے بالوں کی شرح تھوڑی زیادہ تھی۔ ماہرین کے خیال میں دوران حمل ہارمونز بالوں کی نشوونما اور غذائی نالی کے مسلز کو ڈسٹرب کرتے ہیں اور یہی اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔
بیٹا ہوگا یا بیٹی ۔۔ چہرہ دیکھ کر پیشگوئی :
جنس کی پیشگوئی سے متعلق بھی الگ الگ طریقہ کار ہوتا ہے، ہماری خالہ ، مامی ٹائپ کی خواتین یا کہیں ساس بھی حاملہ خاتون کا چہرہ دیکھ کر بتادیتی ہیں کہ اگر چہرے پر رونق ہے تو بیٹی ہوگی اور اگر چہرہ بے رونق ہے تو بیٹا ہوگا، یا پیٹ کا شیپ ایسا ہے تو یہ ہوگا اور پیٹ کا شیپ ویسا ہے تو وہ ہوگا۔۔۔۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ جو چاہے وہی ہوتا ہے ان پیشن گوئیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ اکثر یہ غلط ہی نکلتی ہیں ۔
حاملہ خاتون کی غذا:
حاملہ خاتون کی غذا پر سب کی بہت نظر ہوتی ہے۔ وہ کھٹا کھارہی ہے یا میٹھا، زیادہ کھارہی ہے یا کم، اس کا اٹھنا بیٹھنا ہرچیز پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ حاملہ خاتون کو کہا جاتا ہے کہ وہ ڈبل کھانا کھائیں کیونکہ اسے بچے کو بھی غذا پہنچانی ہے ، اس سلسلے میں زبردستی بھی کی جارہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ غلط ہے ، حاملہ خاتون کو زیادہ خوراک کی ضرورت تو ہوتی ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ڈبل خوراک ایک ہی وقت میں ٹھنسا دی جائے، بلکہ تھوڑا تھوڑا لیکن وقفے وقفے سے کھلانا چاہیے۔ تاکہ ہضم ہو سکے۔
دوران حمل صرف آرام کیا جائے:
اکثر خواتین اس بات پر زور دیتی ہیں کہ دورانِ حمل صرف آرام کیا جائے ، کم سے کم کام کیا جائے ، خاص کر وہ مائیں جن کی بیٹیاں حمل سے ہوں وہ چاہتی ہیں کہ بیٹی صرف بستر پر بیٹھی رہے۔ جبکہ یہ انتہائی غلط ہے، حمل کے دوران آپ جتنا ایکٹو رہیں گی اتنی ہی آسانی سے ڈیلیوری ہوگی، کیونکہ آپ کی بچہ دانی کے مسلز حرکت میں رہیں گے، ہلکی پھلکی ورزش بھی داکٹر کے مشورے سے کی جا سکتی ہے۔
بیٹا ہوگا تو قے اور متلی ہوگی:
کچھ لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے ہاں بیٹا ہے تو اس کو قے یا متلی ہوتی رہے گی اور بیٹی ہے تو ایسا کچھ نہیں ہوگا، تو ایسا بھی نہیں ہے یہ کنڈیشن مارننگ سک نیس ہے جو کسی بھی حاملہ خاتون کو ہو سکتی ہے اور یہ صبح بھی ہو سکتی ہے اور کچھ کھانے کے بعد بھی ہو سکتی ہے ، اکثر کچھ بادی یا ہیوی کھانے کے بعد ایسا عام طور پر ہو جاتا ہے کیونکہ بچے کی وجہ سے نظامِ ہاضمہ سست ہو جاتا ہے۔
چائے یا کافی بچے کے لئے نقصان دہ ہے، بچہ کالا ہوگا:
دورانِ حمل چائے یا کافی پینے سے بچہ کالا ہوگا۔ ایسا بھی نہیں لیکن زیادہ چائے یا کافی یا کیفین کی مقدارسے گریز کرنا چاہیے یہ 200 ملی گرام سے کم ہونی چاہیے۔
ایک بار آپریشن ہوجائے تو پھرنارمل ڈیلیوری ممکن نہیں :
یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ اگر ایک دفعہ آپریشن ہوگیا تو پھر نارمل ڈیلیوری تو ممکن ہی نہیں۔ جبکہ اس کا انحصارمختلف صورتوں اور کنڈیشنز پر ہوتا ہے، بعض اوقات جسم کی ساخت کی وجہ سے نارمل ڈیلیوری ممکن نہیں ہوتی ، یا کبھی کسی حادثے کی صورت میں آپریشن کی نوبت آجائے تو آئندہ ضروری نہیں کہ آپریشن ہی ہو۔
گرم غذائیں کھانے سے بچہ وقت سے پہلے ہوجاتا ہے:
اس حوالے سے بھی سائنسی تحقیق کچھ نہیں کہتی یہ بھی ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ اگر گرم غذائیں کھائی جائیں تو بچہ وقت سے پہلے ہوجائے گا یا ڈیلیوری کے قریب ایسی غذائیں دی جاتی ہیں جس سے پیدایش کے وقت بچہ جلدی ہوجائے، جیسے پائے، یخنی ، کیسٹر آئل ، سوپ وغیرہ۔
Discover a variety of Health and Fitness articles on our page, including topics like Hamal Se Mutaaliq Ghalat Fehmiyan and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Hamal Se Mutaaliq Ghalat Fehmiyan to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.