کہتے ہیں ایک عورت مکمل تب ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے، اور ماں بننے کا احساس وہ احساس ہے جو صرف ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ یہ کسی بھی عورت کیلیئے زندگی کا یادگار ترین لمحہ ہوتا ہے کیونکہ اپنے وجود سے ایک نئے وجود کو دنیا میں لانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ ہر ماں کی بس یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسکا بچہ صحت مند ہو اور اسکے لیئے وہ نہ جانے کتنی دعائیں کرتی ہے۔
ایسی ہی ایک خاتون کورٹنی بیکر بھی تھیں۔ جن کو جب اولاد کے پیدا ہونے کی امید ملی تو دوسری بہت ساری خواتین کی طرح وہ بھی اپنی گائناکولوجسٹ سے حمل کی کنڈیشن اور صحت کےحوالے سے جاننے کے لیے گئيں-
لیکن اس کی ڈاکٹر کے پاس کورٹنی کے لیے کچھ اچھی خبریں نہ تھیں۔ کورٹنی کا الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ ان کی کوکھ میں پلنے والا بچہ ڈاون سنڈروم کا شکار ہے اور نارمل بچوں کی طرح نہیں ہے اس وجہ سے بہتر یہی ہے کہ کورٹنی اس بچی کو ضائع کروا دیں تاکہ آئندہ زندگی کے مسائل سے محفوظ رہ سکیں-
ہر حاملہ عورت کی طرح کورٹنی کے لیے بھی ڈاکٹر کا یہ مشورہ سخت تکلیف دہ تھا اور مایوسی کے عالم میں وہ حمل کو برقرار رکھنے اور ضائع کرنے کے فیصلے کے درمیان میں لٹک گئيں- مگر پھر وہ اپنے اندر اتنا حوصلہ نہ پا سکیں کہ اپنے بچے کو صرف اس وجہ سے ضائع کر دیں کہ وہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے
ایمرسن فیتھ، اس بچی کا نام تھا جس نے کورٹنی بیکر کے گھر پر جنم لیا ڈاؤن سنڈروم ک شکار ایمی اپنی ماں کی زندگی میں ایک اجالا لے کر آئی- اس کی شکل دیکھ کر کورٹنی سے شکر ادا کیا کہ اس نے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل نہیں کیا تھا-
عام طور پر ڈاون سنڈروم کے شکار بچوں کے والدین کے حوالے سے ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ ایسے بچوں کے والدین کے اوپر بہت زيادہ ذمہ داریاں آجاتی ہیں جس سے ان کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے- مگر کورٹنی ڈاکٹروں کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتی ہیں اس وجہ سے انہوں نے ایمی کی پیدائش کے تقریباً ایک سال بعد اس ڈاکٹرکے نام ایک خط لکھنے کا فیصلہ کیا جس نے انہیں حمل ضائع کرنے کا مشورہ دیا تھا-
تاکہ وہ اپنے اس خط کے ذریعے اس ڈاکٹر کی سوچ کی تصیح کر سکیں تاکہ وہ کسی اور ماں کو ڈاون سنڈروم کے شکار بچے کے حمل کے ضائع ہونے کا مشورہ نہ دیں- اپنے اس خط کو انہوں نے ڈاکٹر کو میل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف جگہوں پر بھی شئير کیا جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گیا-
کورٹنی نے اس خط کے آغاز میں ڈاکٹر کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی ایک دوست کا واقعہ بیان کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک دوست نے جب ڈاکٹر سے حمل کے دوران معائنہ کروایا تو ڈاکٹر کا یہ کہنا تھا کہ بچہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ وہ حمل کی مکمل مدت میں کہتی رہیں-
جب بچہ ڈلیور ہوا تو ماں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کا بچہ ڈاون سنڈروم میں مبتلا ہونے کے سبب نارمل نہیں ہے- مگر جب اس نے اس حوالے سے ڈاکٹر سے پوچھا تو ڈاکٹر نے اس ماں کو بتایا کہ میں نے تو ہمیشہ آپ سے یہی کہا تھا کہ آپ کا بیٹا بالکل ٹھیک ہے تو میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ ڈاون سنڈروم کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ بچہ ٹھیک نہیں ہے اس وجہ سے اس کو ضائع کر دینا چاہیے-
کورٹنی کا یہ بھی خط میں لکھنا تھا کہ وہ اپنی اس دوست کے تجربے اور اس ڈاکٹر کی مثبت سوچ کی بہت مشکور ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمی کو اس دنیا میں لانے کا فیصلہ کر سکیں اور تمام تر سرد و گرم کا سامنا کرنے کے بعد میں فخریہ طور پر آج کہہ سکتی ہوں کہ میری بیٹی بالکل ٹھیک ہے-
کورٹنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے دل میں اس ڈاکٹر کے خلاف کسی قسم کی ناراضگی، نفرت یا برائی نہیں ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کی بھی خواہشمند ہیں ڈاکٹر اپنی سوچ کو تبدیل کریں اور ڈاؤن سنڈرم کے شکار بچوں کو ان کی پیدائش سے قبل قتل کرنے کا مشورہ دینا بند کریں-
اس کے ساتھ خط کے آخر میں ان کی دعا یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی ماں کو اولاد کے دکھ اور تکلیف سے محفوظ رکھے اور ہر ماں کی جھولی میں خوبصورت ترین اولاد ڈالے- مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار بچے بیمار نہیں بلکہ مکمل صحت مند ہوتے ہیں-
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Bachi Ki Pedaish Se Mana Kar Dia Tha and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Bachi Ki Pedaish Se Mana Kar Dia Tha to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.