پاکستانی صحافیوں پاکستانی ناظرین کی توجہ کافی حاصل کر چکے ہیں، کچھ تو ایسے ہیں، جن کا پروگرام دیکھنے کے لیے ناظرین بھی بے تاب ہوتے تھے، تاہم اب یہ صورتحال سوشل میڈیا کے بعد کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔
لیکن حامد میر بھی اب بھی اپنی پہچان کے عین مطابق ناظرین میں مقبول ہیں۔
حامد میر کا شمار پاکستان کے ان چند صحافیوں میں ہوتا ہے جنہیں عالمی طور پر مانا جاتا ہے، جبکہ حامد میر نے صحافت کا آغاز ہی اپنے والد کے نقش قدم پر کیا تھا۔
حامد میر کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ میرے والد بھی ایک اخبار میں لکھتے تھے، انہیں دیکھ کر ہی مجھے بھی لکھنے کا شوق ہوا، پہلی بار میں نے ایک اخبار میں بچوں کے حوالے سے لکھا، چونکہ میں خود بھی بچہ ہی تھا تو جب میرا مضمون چھپا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی، پھر اسی طرح نوائے وقت میں بھی میری کہانیاں چھپی، اس سب کا علم میرے گھر والوں کو نہیں تھا۔ کیونکہ میرے والد سمجھتے تھے کہ صحافت ایک خطرناک اور محنت، لگن والا پیشہ ہے، اور مارشل لاء کے دور میں صحافت ممکن نہیں ہوگی۔
حامد میر نے بتایا کہ میں کالم لکھتا تھا مگر میرے والد کو اندازہ ہی نہیں تھا، 1983 میں عورتوں کے حقوق کے حؤالے سے جلوس تھا،اس جلوس میں جب حبیب جالب صاحب پر روکا گیا اور جب والد نے دیکھا کہ بیٹا بھی موجود ہے تو انہیں اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ بیٹا ان ایکٹیوٹیز میں شامل ہو گیا ہے۔ اس وقت والد صاحب نے مجھے بہت سمجھایا، کہ یہ پیشہ پُر خطر ہے مجھے دیکھو، تم کچھ اور کرلو لیکن اس پیشے میں مت آنا۔
والد وارث میر سے متعلق حامد میر کا کہنا تھا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ والد اس طرح 48 سال کی عمر میں ہمیں چھوڑ جائیں گے۔الد صاحب کے انتقال کی تعزیت کرنے جب بے نظیر بھٹو آئیں تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ینگ میں تم کیا بننا چاہتے ہو۔ اس وقت میں کرکٹ کا کافی شوق رکھتا تھا، لیکن بے نظیر نے کہا کہ تم اپنے والد کے نقش قدم پر چلو، تب میں نے بہت سوچا اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صحافت کو پیشے کے طور پر لے لیا۔ حامد کہتے ہیں کہ اگر میرے والد زندہ ہوتے تو مجھے کبھی بھی صحافت میں نہ آںے دیتے۔
اپنے ساتھ پیش آںے والے واقعہ سے متلعق حامد میر کا کہنا تھا کہ ایک صحافی جو کہ اُس دور میں میرے سخت مخالف تھے مگر اب دوست ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ حامد کو کبھی صحافت میں نہیں آںے دینا، اس بات کو میں نے اس حد تک مثبت لیا کہ اس نے میری زندگی ہی بدل دی تھی۔
جبکہ حامد میر کے دو بچے ہیں بیٹا عرفات میر اور بیٹی عائشہ میر، دونوں والد سے ایک ہی شکوہ کرتے ہیں کہ والد پیشے کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔جبکہ حامد میر کی اہلیہ نشید حامد بھی نیوز ریڈر رہ چکی ہیں انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حامد میر اور ان کی راہیں ایک ساتھ ہو جائیں گی۔ نشید کہتی ہیں کہ حامد کو اپنے پیشے سے سب سے زیادہ محبت ہے، وہ اپنے پیشے کے آگے کسی چیز کو نہیں دیکھتے ہیں۔ اسی لیے میں نے حامد کو نہیں روکا اور گھر کو اور بچوں کو خود سنبھالا۔
نشید کا مزید کہنا تھا کہ حامد کے سخت بیانیے کی وجہ سے ہمیں ملک سے جلا وطن بھی ہونا پڑا تھا، ہم نے قربانیاں بھی دی ہیں۔ جبکہ وہ کہتی ہیں کہ حامد چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ جاتے ہیں۔
2019 میں حامد میر کے بیٹے عرفات میر کی شادی پاکستان کے مہنگے ترین ہوٹل میں انجام پائی تھی، یہ شادی اس حد تک منفرد تھی کہ اس شادی کو قومی اور بین الاقوامی اخباروں اور ویب سائٹس نے بھی شہ سرخیوں میں شامل کیا تھا۔ کیونکہ اس شادی میں ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت کئی سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی تھی۔
اس وقت حامد میر جیو ٹی وی سے وابستہ ہیں لیکن گزشتہ ماہ ایک جارہانہ تقریر کی وجہ سے جیو نے انہیں آف ائیر کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے ادارے سے بھی نالاں ہیں۔ حال ہی میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں حامد کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے بیوی بچوں کو بیرون ملک بھجوا دیا ہے۔ اس وقت بھی حامد میر پاکستان میں صحافت کر رہے ہیں اور وہی ہمت اور لگن سے کر رہے ہیں۔
Discover a variety of News articles on our page, including topics like Bachon Ki Hifazat Ke Liye Paksitan Se Bahir Bhej Dia and other health issues. Get detailed insights and practical tips for Bachon Ki Hifazat Ke Liye Paksitan Se Bahir Bhej Dia to help you on your journey to a healthier life. Our easy-to-read content keeps you informed and empowered as you work towards a better lifestyle.